ایک سے زائد حج فقہ ترجیحی کی روشنی میں

از: علامہ یوسف القرضاوی

 

                وہ شخص جو اسلام کی ترجیحات سے واقف ہو اور ہر چیز کے درست مقام کا علم رکھتاہو، کبھی ان ترجیحات کے سلسلے میں شک و شبہ کا شکار نہیں ہوگا جن کا لحاظ کرنا ناگزیر ہے، میں کئی سالوں سے اسی کی صدا لگارہا ہوں اوراسے میں نے ”فقہ ترجیحی“ کا نام دیا ہے۔

                ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اسلام نے ہمیں جن چیزوں کا مکلف بنایا ہے، وہ ایک درجے کی نہیں ہیں، بلکہ ہر عمل کا ایک الگ الگ درجہ ہے۔ نبی کریم … کا ارشاد ہے: ”ایمان کے ستر سے زائد شعبے ہیں جن میں سب سے بلند مرتبہ لا الہ الا اللّٰہ کا ہے اور سب سے کم درجہ کا عمل راستہ سے تکلیف دہ چیز کا ہٹادینا ہے“۔ اس سے پتہ چلا کہ سب سے کمتر اور سب سے بلند درجے کے علاوہ بیچ کے بھی درجات ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿أجعلتم سقایة الحاج وعمارة المسجد الحرام کمن آمن باللّٰہ والیوم الآخر وجاہد فی سبیل اللّٰہ لایستوون عند اللّٰہ﴾ (کیا تم نے حاجیوں کو پانی پلانے اورمسجد حرام کو آباد کرنے کو ایسا سمجھ لیاہے جیسے کہ کوئی شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان لایا اور خدا کی راہ میں جہاد کیا؟ یہ دونوں اللہ کے یہاں ہرگز برابر نہیں ہوسکتے)۔

                اس سے معلوم ہوا کہ تمام اعمال آپس میں برابر نہیں ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو اس فقہ سے واقف کرائیں، میں ایک مدت سے ایسے لوگوں کو دیکھتا آرہا ہوں جو اپنے مزدوروں پر ظلم ڈھاتے ہیں اور اپنی زمینوں میں اجرت پر کام کرنے والوں کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں، میں نے اپنے گاؤں کے ان کسانوں کو بھی دیکھا ہے جو دوسروں کی زمینوں میں اجرت پر کام کرتے ہیں، ان کے مالکوں کا حال یہ ہے کہ ان کی زمینیں برباد ہوجاتی ہیں، لیکن وہ ان غریبوں کو ایک پیسہ دینا گوارا نہیں کرتے، دوسری طرف وہ تین تین بار یہاں تک کہ دس دس بار حج کے لئے جاتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ان غریبوں کے حقوق ادا کرتے تو ان کا یہ عمل بار بار حج سے افضل ہوتا۔

                علماء فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرض کی ادائیگی سے قبل نوافل کو قبول نہیں کرتا اور جو شخص فرض کی ادائیگی کے بعد نفل کی فرصت نہ پائے تو وہ معذور ہے، لیکن جس شخص کی نفل میں مشغولیت اسے فرض سے محروم کردے وہ مغرور ہے، ہمیں اس وقت اس نکتے کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے۔

                حضرت عبداللہ بن مسعود کے بارے میں آتا ہے کہ انھوں نے فرمایا: آخری زمانہ میں لوگ بلاوجہ کثرت سے حج کریں گے، ان کے لئے سفر انتہائی آسان ہوگا اورمال و دولت کی فراوانی ہوگی، تو ان میں سے ایک شخص ریگستان اور بے آب و گیاہ زمین میں اپنا اونٹ دوڑائے گا اور حج کا سفر کرے گا حالانکہ اس کا پڑوسی بدحال ہوگا اور وہ اس کی غم خواری نہ کرے گا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ حج کے ارادے سے ریگستانوں اور بے آب و گیاہ زمینوں میں سفر کرے گا اور اپنے پڑوسی کو اس حال میں چھوڑ دے گا کہ وہ بھوک، فقر اور ضرورت سے بدحال ہوگا اور کوئی اس کا پرسان حال نہ ہوگا، یہی آج کل ہورہا ہے۔

                بشربن حارث جو کہ متصوفین وزہاد میں شہرت کے حامل ہیں اور جن کا شمارامت کے معروف زاہدوں اوراللہ والوں میں ہوتا ہے، ان کے پاس ایک شخص آیااور کہنے لگا: اے ابونصر! میں نے حج کا ارادہ کیاہے اور آپ کے پاس کچھ نصیحت کی باتیں سننے آیا ہوں، تو کیاآپ مجھے کچھ نصیحت کریں گے؟ آپ نے اس سے پوچھا: تم نے حج کے لئے کتنا سفر خرچ اکٹھا کیا ہے؟ اس نے کہا: دو ہزار درہم، (ہزار درہم اس وقت کے لئے ایک بڑی رقم تھی اوراس کی قوت خرید بہت زیادہ تھی) انھوں نے اس سے پھر دریافت کیا: تم اس حج کے ذریعہ زہد و تقوی حاصل چاہتے ہو یا بیت اللہ کا اشتیاق تمھیں وہاں لئے جارہا ہے یا تم رضائے الٰہی کے حصول کے خواہشمند ہو؟اس نے کہا: خدا کی قسم رضائے الٰہی کا حصول میرا مقصد ہے، انھوں نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسا راستہ بتاؤں جس سے تمہیں اپنے شہرہی میں گھر بیٹھے خدا کی خوشنودی حاصل ہوجائے اوراگر میں تمہیں یہ طریقہ بتاؤں تو کیا تم اس کے مطابق عمل کروگے؟ اس نے کہا: ضرور کروں گا۔ فرمایا: جاؤ اور یہ رقم دس لوگوں کو دے دو، کسی فقیر کو جس سے تم اس کی تنگ دستی دور کردو، یتیم کو جس کی ضرورتیں پوری کردو، قرض دار جس کا قرض ادا کردو اور کسی کثیر العیال شخص کو جس سے کہ تم اس کے اہل وعیال کا بوجھ ہلکا کردو ․․․․ اس طرح انھوں نے دس لوگوں کا ذکر کیا اور کہا: اگر تم ان میں سے کسی ایک کو یہ رقم دے دو جس سے اس کی ضرورتیں پوری ہوجائیں تو یہ عمل افضل ہے۔ یہ سن کر اس شخص نے کہا: اے ابونصر! میں سفر کا پختہ ارادہ کرچکا ہوں، فرمایا کہ جب مال گندی تجارت اورمشکوک ذرائع سے اکٹھا کیا جاتا ہے تو انسان کا نفس اسے اپنی خواہشات کے مطابق خرچ کرنا چاہتا ہے۔یعنی ایسا شخص مسلمانوں کیلئے نفع بخش اور افضل چیزوں کو چھوڑ کر حج کی خوشیاں لوٹنا زیادہ پسند کرتا ہے۔

                میرا خیال ہے کہ بلاوجہ بار بار حج کرنا اور اس طرح سے ترجیحات کو ترک کردینا بے بصیرتی کا نتیجہ ہے، بہتر یہ ہے کہ ایک مسلمان یہ سمجھے کہ بھوکے کو کھلانا، مریض کا علاج کرانا، بے سہارا کو پناہ دینا، یتیم کی کفالت کرنا، بیوہ عورت کی ضروریات پوری کرنا، ایشیا یا افریقہ یا کہیں کی بھی اسلامی برادری کیلئے مدرسہ یا مسجد بنانا اور خیر کے کسی بھی کام میں شریک ہونا اللہ کی نظر میں زیادہ بہتر ہے۔

                ایک مسلمان پر فرض ہے کہ اس طرح کے ثواب والے کاموں میں بے پناہ سرور اور لذت محسوس کرے اوراس کا یہ سرور اورلطف اس لذت سے بھی بڑھ کر ہو جس کا احساس اسے دوبار اور تین بار حج کرتے وقت ہوتاہے، جب کہ وہ بیت اللہ کا طواف کررہا ہوتا ہے اور ”لبیک اللّٰہم لبیک“ کی صدا بلند کرتا ہے، ان عظیم کارہائے خیر کی بجائے دوسری یا تیسری بار کے حج میں کیف و سرور محسوس کرنا یقینا افسوس ناک ہے، دین میں بے بصیرت ہونے کی دلیل ہے اور فقہ ترجیحی سے نابلد ہونے کی علامت ہے۔

                اگرمسلمانوں کواس کا شعور ہوجائے تو ہم ہرسال اربوں روپے سے صحیح فائدہ حاصل کرسکتے ہیں۔اگر کوئی تنظیم اس کام کو منظم طریقہ پر انجام دے اور ایک فنڈ بنائے جس کانام حج کا متبادل فنڈ ہو اور وہ لوگ جو نفلی حج کے ذریعہ زیادہ سے زیادہ ثواب حاصل کرنا چاہتے ہیں اسی طرح وہ بھائی جو بیس اور تیس ہزار میں فائیو اسٹار حج کرتے ہیں، وہ حج کا خرچ ”حج کے متبادل فنڈ“ میں جمع کریں تاکہ اس رقم کو ساری دنیا کے مسلمانوں کے مصالح میں خرچ کیا جائے توایک بڑی ضرورت پوری ہوگی اور مسلمانوں کی زندگی کا ایک بڑا خلا پر ہوجائے گا۔ اسی لئے میں کہا کرتا ہوں کہ کاش! امت میں یہ بیداری پیدا ہوجائے۔                                                                                                                                                                                       (علامہ یوسف القرضاوی کی تحریر کا ترجمہ)

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ3، جلد: 91 ‏، صفر 1428 ہجری مطابق مارچ2007ء